All posts by Shuja Nawaz
Urdu interview on India-Pakistan military messaging. With Arifa Noor of Dawn News.
‘Promise Kept’? Why Trump’s Pullout Doesn’t Mean Peace and Stability for Afghanistan – Sputnik International
Interview — Tactical Nuclear Weapons Add Greater Uncertainty About Nuclear Security: Shuja Nawaz
Ahmed Faruqi interviews me in writing on issues raised in The Battle for Pakistan for Naya Daur.
The Battle for Pakistan: The Bitter US Friendship and a Tough Neighbourhood- The New Indian Express
New book explores differences between Pakistan army, radical elements
Khaled Ahmed focuses on religion and the Pakistan army in my new book The Battle for Pakistan.
Restoring Jinnah’s vision: a conversation with Shuja Nawaz
Both friends and enemies – Newspaper – DAWN.COM
Zahid Hussain of DAWN reviews The Battle for Pakistan. Jan 29, 2020.
Urdu review of The Battle for Pakistan by Zaman Khan
شجاع نواز کی کتاب The Battle for Pakistan ایک نظر پر
زمان خاں
شجاع نوا٘ز کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ انہوں نے اپنی لیاقت کا لوہا پاکستان کی فوج کے بارے میں اپنی پہلی کتاب Crossed Swords , Pakistan , Its Army , and the Wars Within لکھ کراپنا لوہا منوا لیا تھا
زیر نظر ان کی نئئ کتاب ان کے بقول پہلی کتاب کا ہی تسلسل ہے-
شجاع نواز پاکستان کی فوج کے سابق سربراہ جنرل آصف نوا٘ز جنجوعہ کے چھوٹے بھائی ہیں- اس لئے ان کی رسائئ انتظامیہ اور فوج کے ان کونوں کھدروں تک ہے جہاں دوسرے دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کے جاتے ہوئے پر جلتے ہیں-دوسری طرف امریکہ میں ایک نہایت اہم ادارے میں کام کرنے کی وجہ سے ان کی رسائئ واشنگٹن میں حساس اداروں اور فیصلہ سازون تک بھی ہے-اس لئَے ان کے پاس معلومات کا ذخیرہ دوسرے لوگوں سے بہت زیادہ ہے –ان کے ہر لکھے ہوئے لفظ کو ساری دنیا میں پالیسی ساز بہت اہمیت دیتے ہیں اور ان کی تحریروں کی قدر کرتے ہیں-ان کی بیٹی آمنہ نے بھی اپنی محنت سے امریکی میڈیا میں اپنا مقام بنا لیا ہے-
مجھے اس بات پر فخر ہے کہ وہ میرے فیس بک فرینڈ ہیں اور میں ان کی تحریروں کو بہت شوق اور اشتیاق سے پڑھتا ہوں کیونکہ ان تحریروں کو پڑھنے سے مجھے دنیا ، پاکستان اور امریکہ کی پالیسیوں کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے-
ان کی حال ہی میں چھپنے والی کتاب The Battle For Pakistan The Bitter US Friendship and a Tough Neighbourhood۔ہے جس میں انہوں نے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کا تفصیل کے ساتھ جائزہ لیا ہے-اس سے پہلے کہ میں اس کتاب پر بات کروں میں اپنے استاد جناب پروفیسر انوار ایچ سید کے ایک مضمون اور ان کے اپنے ساتھ اننڑویو کا حوالہ دینا چاہوں گا-Who Pays the Piper Calls the Tune, میں نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے عرض کیا کہ پاکستان نے کئئ موقعوں پر امریکہ کی بات ماننے سے انکار کردیا جن میں ایک ایٹم بم بنانا بھی ہے-پروفیسر انوار ایچ سید کہ یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائِنس کے میرے استاد بھی تھے نے کورا جواب دیا اور کہا کہ زمان صاحب اگر آپ کا باورچی یا ڈرایئور چاہے تو آپ کی زندگی اجیرن بنا سکتا ہے-
شجاع نواز کی کتاب The Battle For Pakistan: The Bitter US Friendship and Tough Neighbourhoodکے تیرا باب ہیں-
1.The Revenge of Democracy? 2.Friends or Frenenemies? 3.2011 A Most Horrible Year! 4. From Tora Bora to Pathan Gali. 5. Internal Battles 6. Salala Anatomy of a failed alliance. 7. The Mismanagement the Civil-Military Relationship. 8. US Aid Leverage or Trap. 9. Mil to Mil Relations: Do More. 10. Standing in the Right Corner. 11. Transforming the Pakistan Army. 12. Pakistan’s Military Dilemma 13. Choices.
کتاب کے شروع میں Important Milestones 2007-19
جنہیں آپ اہم واقعات بھی کہہ سکتے ہیں کی تاریخیں دی ہیں-کتاب کے ابتدایہ Preface-Salvaging a Misalliance میں وہ لکھتے ہیں کہ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کوایک بیڈ شادی بھی کہا جاتا ہے-اس کے علاوہ چین اور جاپانی محاورے میں ایک ایسی جوڑی بھی کہا جا سکتا ہے جو سوتی تو ایک بستر پر ہے مگر خواب الگ الگ دیکھتی ہے-یہ شادی ٹوٹنے جارہی ہے مگر اسے دونوں پارٹیوں اور خطے کے مفادات کے لئیے بچانا ضروری ہے-کیونکہ پاکستان ایک ایسے علاقہ میں ہے جہاں یہ اہم کردار ادا کر سکتا ہے-
پچھلے ستر سالوں میں پاک-امریکہ تعلقات میں بہت اونچ نیچ دیکھنے میں آئی ہے-محبت کی پینگیں بھی چڑحھائی گئی اور تو تکار کی نوبت بھی آئی-پاکستان میں ابھی جمہوریت پوری طرح نہیں آئی اور سویلین اور فوج کی کشمکش جاری ہے گو کہ ایک پیج کا نعرہ بھی لگایا جاتاہے-
شجاع نواز کا کہنا ہے کہ اسے اس بات پر فخر ہے کہ اس کی کئ نسلوں نے فوج میں خدمات انجام دیں – وہ وردی کی عزت کرتے ہیں –ان کا تعلق جنگکو قبیلہ راجپوت جنجوعہ سے ہے-مگر وہ سویلین حکومت کے متبادل کے طور پر فوج کی حمائیت نہیں کرتے-
اس کتاب میں انہوں نے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے اچھے اور خراب پہلوں کا تفصیلی جائئزہ لیا ہے-ایک وقت آیا کہ امریکنوں نے افغانستان نے سرحد میں داخل ہوکر پاکستانی فوجیوں کو مار دیا جس کے جواب میں پاکستانی فوج نے بھی کاروائئ کی-
امریکہ نے جواباً پاکستان کی مالی امداد روک دی-جو کہ اس نے افغانستان میں فوجی کاروائئ میں مدد کرنے پر جنرل مشرف کے زمانے میں وعدہ کی تھی-
ان کا کہنا ہے کہ امریکہ ہندوستان کے ساتھ دوستی کے بارے میں پاکستان کے جزبات اور تحفظات کو خاطر خوا اہمیت نہیں دیتا-
شجاع نے سوات میں مذہبی انتہا پسندی کے فروغ اور ملڑی ایکشن کا جائئزہ بھی لیا ہے-انہوں نے میمو گیٹ، امریکی فوجیوں کے اسامہ بن لادن کے لئئے ایبٹ آباد مشن پر بھی روشنی ڈالی ہے-
ان کا کہنا ہے کہ راحیل شریف کے آئئ ایس آئئ کے سربراہ نے بھی حکومت کا تختہ الٹنے کے کوشش کی تھی-
ان کا کہنا ہے کہ آئئ ایس آئئ کے ایک افسر بلی نے جو آجکل امریکہ میں رہتا ہے امریکہ کو اسامہ بن لادن کے بارے میں معلومات دیں-پاکستان کے وزیر اعظم نے واشنگٹن میں اعلان کیا کہ پاکستان نے اسامہ کے معاملہ میں امریکہ کی مدد کی تھی-
ڈرون حملوں کا بھی عجیب پس منظر تھا ایک طرف پاکستان حکومت کی اجازت سے یہ ہوتے تھے دوسری طرف حکومت پاکستان اس کی مذمت کرتی تھی-ان حملوں سے پاکستان میں امریکہ غیر مقبول ہو گیا-
بمبئ دہشت گردی کے واقعہ کے بارے میں شجاع نے پاکستان کے سفیر حسین حقانی کے حوالے سے لکھا ہے کہ آئئ آیس آئئ کے چیف نے حقانی کو بتایا کہ یہ ہمارے آدمی تھے مگر مشن ہمارا نہیں تھا-
گو وہ ذاتی طور پر چاہتے ہیں کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات مزید پھلے پھولیں مگر وہ امریک کردار کے زبردست ناقد بھی ہیں –انہون نے اس سلسلہ میں ایک بہت ہی اہم امریکی دانشور Andrew Wilder کے جائزہ کو تفصیل سے پیش کیا ہے-
ان کا خیال ہے کہ پاکستان صرف عکسریت کے بل بوتے پر خوش حال ملک نہیں بن سکتا-اس کے لئئے اسے اپنے شہریوں کی تعلیم و تربیت اور ہنر مندی اور سماجی بھلائئ پر بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے-
ان کی یہ حقیقت پر مبنی رائے ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ایٹمی جنگ کے نتیجہ میں دونوں ملک تباہ ہو جا یئں گے-
یہ کام پاکستان کے سارے ہمسایوں کے ساتھ پرامن تعلقات اور تجارت بڑھانے سے ہے ممکن ہے-
شجاع نے تین سابق آئئ ایس آئئ کے سربراہان کے ساتھ اپنی بات چیت کا حوالہ دیا ہے جن کے خیال میں دیشت گرد ویزہ لے کر نہیں آتے-اس لئے ویزہ میں آسانی ہونی چاہئے-
ان کے جائزہ کے مطابق پاکستانی فوج میں آج بھی مذہبی کا عناصر کا اچھا خاصہ اثر و رسوخ ہے-دو آئئ ایس آئئ کے سربراہ اور چند کور کمانڈر تبلیغی جماعت کے ممبر ہیں-
میرے خیال میں شجاع کی کتاب سیاست اور عالمی معاملات پر ایک بہت ہی اہم اضافہ ہے-خاص کر پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے بارے میں اس کتاب میں جتنی معلومات ملتی ہیں وہ اور کہیں نہیں ہیں-سو یہ سیاست، تاریخ اور انڑنیشل افیرز کے ہر طالب علم کو یہ پڑھنی چاہئئے
شجاع کی کتاب دنیا اور پاکستان میں چھپ گئئ اور اس پر تبصرے بھی ہھی ہو گئے مگر یہ بات سمجھ نہیں آئئ کہ جب شجاع اپنی کتاب کی لانچ کے لئے پاکستان آئے تو فوجی حکام نے انہیں کہا کہ وہ کتاب لانچ نہ کریں مگر جب شجاع نے ان کی بات ماننے سے انکار کردیا تو انہوں نے منتظمین کے ذریعہ یہ فنکشن منسوخ کروا دئئے-